حال دل

آۓ تھے کہنے حال دل بیٹھے ہیں لب سیۓ ہوۓ

سر اپنا خم کۓ ہوۓ اپنا سا منہ لۓ ہوۓ

چھڑو نہ ہم کو زاہدو! بیٹھے ہیں ہم پیۓ ہوۓ

چاہتے ہو جو لوٹنا زہد کو تم لۓ ہوۓ

کسیے گۓ تھے شوق سے لینے اس آشنا کو ہم

ویسے کے ویسے رہ گۓ اپا سا منہ لۓ ہوۓ

جاں سے بھی عزیز کیوں مجھ کو نہ ہوں یہ داغ دل

ہاۓ کسی کوکیا خبر کس کے ہیں یہ دیۓ ہوۓ

کہنے کو ہجر ہے مگر دل کی کسی کو کیا خبر

پھرتے ہیں اس نگار کو پہلو میں ہم لیۓ ہوۓ

ہوگۓ زندہ مردہ دل جب یہ سنا وہ آئیں گے

جب یہ سنا نہ آئیں گے مرگۓ پھر جیۓ ہوۓ

چاہتے ہیں نہ فاش ہو ان کو جومجھ سے ربط ہے

رہتے ہیں سب کے سامنے خود کو جو وہ لیۓ ہوۓ

حضرت مجذوب رح