حضرت والد رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر

سیدی و سندی حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی نظم سے انتخاب

کیوں تیرہ و تاریک ہے نظروں میں جہاں آج

کیوں چھاۓ ہیں ہر سمت یہ ظلمت کے نشاں آج

کیا نخل تمنا کو میرے آگ لگی ہے؟

رہ رہ کے یہ سینےسے جو اٹھتا ہے دھواں آج

رفتار تنفس ہے کہ چلتے ہوۓ آرے

کیوں جرعئہ زہر اب ہے یہ شربت جاں آج

کیا حضرت والد کو قضا لے کے چلی ہے؟

اک قافلہ نور ہے گروں پہ رواں آج

ابا میرے جنت کے بسانے کو چلے ہیں

اے موت! ترا مرتبہ پہنچا ہے کہاں آج

دل میں وہ تلاطم ہے کہ ہلچل سی مچی ہے

اور آنکھ ہے ظالم! کہ بس خشک کنواں آج

وہ والد مشفق، وہ مرے شیخ و مربی

کس دیس کی بستی میں ہیں آرام کناں آج

کیا سچ ہے کہ اب ان کو نہ میں دیکھ سکوں گا

یا دیکھ رہا ہوں کوئی خواب گراں آج

اب کون ہے دنیا میں جو پوچھے گا تقی کو

کس فکر میں ہے؟ کیوں نہیں آیا؟ ہے کہاں آج