حقیقت اجازت بیعت

حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ، 

اس اجازت کی نظیر ایسی ہے جیسے علوم درسیہ میں جو سند دی جاتی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ابھی اسی وقت اس (طالبعلم) کو علوم میں کمال کا درجہ حاصل ہوگیا۔ بلکہ محض اس ظن غالب پر دی جاتی ہے کہ اس کو ان علوم سے ایسی مناسبت ہوگئی ہے کہ اگر وہ برابر درس و مطالعہ میں مصروف و مشغول رہے تو قوّی امید ہے کہ رفتہ رفتہ اس کو کمال کا درجہ بھی حاصل ہو جاۓ گا۔ پھر اگر وہ اپنی غفلت اور ناقدری سے خود ہی اپنی اس مناسبت اور استعداد کو ضائع کرے تو اس کا الزام سند دینے والوں پر ہرگز نہیں بلکہ خود اسی پر ہے۔ 

اسی طرح جو کسی کو بیعت کی اجازت دی جاتی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ فی الحال ہی اس کو ان اوصاف میں کمال کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ بلکہ محض اس ظن غالب پر اجازت دی جاتی ہے کہ فی الحال تو ان اوصاف کا درجہ ضروریہ حاصل ہوگیا ہے اور اگر وہ برابر ان کی تکمیل کی فکر و کوشش میں رہا تو قوّی امید ہے کہ رفتہ رفتہ اس کو آئندہ ان اوصاف میں کمال کا درجہ بھی حاصل ہوجاۓ گا۔

(اشرف السوانح: مآثر حکیم الامت رح، ص 187)

 یاداشت: یکم جمادی الثانیہ 1423ھ/ 11 اگست 2002ع