اصلاحی خطوط

سیدی و سندی

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ

کی خدمت میں

حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے

اصلاحی خطوط

بسم اللہ الرحمن الرحیم

احقر کے والد حضرت کمانڈر شوکت کمال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ٢ سال پھلے مختصر علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ  نے سیدی و سندی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی خدمت میں اپنی اصلاح کے لئے جو خطوط لکھے  ان میں سے ایسی باتیں جو ہم سب کے لئے مفید ہوسکتی ہیں، اس مضمون میں پیش کی جارہی ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کو ہم سب کے لئے نافع اور مرحوم کے لئے صدقہ جاریہ بنادیں۔ آمین۔  سیدی و سندی حضرت مدظلہ کے حسب ارشاد مختصراً آپ کےحالات زندگی بھی شامل کئے جارہے ہیں۔

مختصر حالات زندگی

حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ۳ نومبر ۱۹۳۰ ع کو الہ آباد کے قصبہ بیگم سرآئے میں ہوئی۔ آپ کے والد جناب خان بہادر محمد حنیف صاحب کثیر العیال اور کنبہ پرور انسان تھے۔ علیگڑھ کالج کی تعلیم کے باوجود دینی سوچ رکھتے اور حضرت شاہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھے۔ آپ کے دادا صاحب شیخ سلامت علی مرحوم حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں حضرت محمد بشیرالدین قنوجی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت تھے۔

والد صاحب نے ابتدائی تعلیم الہ آباد اور اسلامیہ کالج لکھنئو میں حاصل کی۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان آ کر نیوی میں آفیسر ہوگئے۔1976 میں نیوی سے ریٹائرمنٹ کے بعد نشینل ریفائنیری میں ملازمت کر لی۔  اس دوران 1984 میں دفتر میں پریشانی حضرت عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری کا سبب بن گئی۔ جس کا وسیلہ اللہ تعالی نے ڈاکٹر عبدالحمید صاحب کو بنایا۔ جزاک اللہ۔

حضرت عارفی قدس سرہ کی کیمیا اثر صحبت نے آپ کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ جمعہ کی مجلس میں باقاعدہ حاضری اور اصلاحی خط و کتابت شروع ہوگئی۔

ایک عریضہ کے جواب میں حضرت عارفی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا،

‘آپ کے دل میں دین کی عظمت ہے۔ انشاءاللہ اس کے ثمرات ضرور آپ کو ملیں گے۔’

البتہ 1986 میں حضرت عارفی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال سے یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔

حضرت عارفی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعدآپ نے اپنی اصلاح کے لئے مختلف بزرگوں کی خدمت میں حاضری دی۔ مگر کہیں مناسبت، جو نفع کے لیۓ لازم ہے، نہ پیدا ہوئی۔ بلآخر  1988 میں سیدی و سندی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی مجلس میں حاضری ہوئی۔ جو ان دنوں لسبیلہ چوک پر مسجد نعمان میں ہوتی تھی۔ شفقت، دلسوزی، خیر خواہی، ہمدردی، نرمی اور پرامیدی کا جو رنگ حضرت عارفی رحمۃ اللہ علیہ کا خاصہ تھا وہ بعینہ یہاں پایا۔ الحمدللہ پھر باقاعدہ اصلاحی تعلق قائم کیا، بیعت ہوۓ اور بلآخر مجاز بیعت ہوۓ۔

بزرگوں کی نسبت کی برکت سے آپ نے ایک صاف و شفاف زندگی گذاری۔  آپ شوق عبادت اور ادائیگی حقوق العباد میں ہمت و عزیمت کا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔متعدد بار حاضری حرمین شریفین سے مشرف ہوۓ۔ وفات سے دو ہفتے قبل بھی عمرہ کے سفر سے واپسی ہوئی تھی۔ مختصر علالت کے بعد جمعۃ المبارک 19 شعبان 1429 بمطابق 22 اکست 2008 کو انتقال فرمایا۔  اللہ تعالی ان کی مغفرت فرما کرانہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین۔

ذیل میں آپ کی اصلاحی مکاتبت میں سے انتخاب پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالی اس کو ہم سب کے لئے نافع بنا دیں۔ آمین۔

اول تعلیم: تواضع

اصلاحی تعلق کی درخواست کے جواب میں سیدی و سندی مدظلہ نے تحریر فرمایا،

‘احقر تو خادم ہے اور خدمت حتی الوسع کے لئے حاضر ہے۔ جو کچھ احقر کو معلوم ہے عرض کردیگا۔ آپ خط لکھ دیا کریں۔’

بزرگوں سے تعلق

حضرت والد صاحب نے حضرت عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے اصلاحی تعلق کا ذکر فرمایا۔ سیدی و سندی مدظلہ نے جوابا” تحریر فرمایا،

‘ڈاکٹر صاحب قدس سرہ کے ساتھ تعلق بڑی نعمت ہے۔ انشاءاللہ دنیا و آخرت میں کام آئیگا۔’

 

کلید کامیابی

سوال: جمعہ کی مجلس میں جو باتیں سنتا ہوں، ان پر اپنے کو پرکھ کر دیکھتا ہوں اور کوشش کرتا ہرں کہ جتنا ممکن ہوسکے عمل کروں۔

جواب: ‘یہی فکر کلید کامیابی ہے۔

 

معمولات کی ادائیگی پر شکر و استغفار

معمولات کی ادائیگی میں پابندی کے باوجود نقص کے احساس پر سیدی و سندی مدظلہ نے فرمایا،

‘شکر ادا کیجئے کہ جو توفیق ہو رہی ہے منجانب اللہ ہے۔ بہت سے اس سے بھی محروم ہیں اور جب اپنے عمل کی کوتاہی کا احساس ہو تو استغفار کیجئیے۔ بس یہی کرتے رہنا ہے۔ کام میں حتی الوسع لگے رہیے، ثمرات و نتائج کا انتظار نہ کیجۓ۔’

 

حقیقت بیعت

بیعت کی درخواست پر فرمایا، ‘ہاتھ پر ہاتھ رکھکر بیعت کرنا ضروری نہیں، اصل چیز اصلاحی تعلق قائم کر کے ہدایات حاصل کرنا ہے۔آپ چونکہ حضرت والا (عارفی) رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے ہیں، اس لئے امید ہے کہ انشاءاللہ یہ کافی ہے۔ تاہم بیعت سے سلسلے کی برکات حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن احقر ابھی بیعت نہیں کرتا۔ اگر بیعت کا تقاضا ذیادہ ہو تو بیعت حضرت ڈاکٹر حفیظ اللہ صاحب مدظلہم، اناج بازار سکھر سے ہو جائیں یا حکیم اختر صاحب سے۔ لیکن خط و کتابت کے ذریعے احقر پہلے کی طرح خدمت انجام دیتا رھیگا۔’

 

معمولات میں دل لگنا

 معمرلات میں دل نہ لگنے کی شکایت پر فرمایا، ‘ دل لگنا ضروری نہیں، دل لگانے کی کوشش ضروری ہے، اور عمل یا ذکر جس کیفیت کے ساتھ ہو قابل شکر ہے۔’

 

اصلی کوشش

سوال: ‘ اللہ تعالی کو راضی کرنے اور راضی رکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔

جواب: ‘ یہی کوشش تادم آخر جاری رھنی چاھئے۔’

 

فکر آخرت

سوال: کبھی کبھی دل میں شدت سے خیال آتا ہے کہ انجام کیا ہوگا۔ آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ کل جمعہ کی مجلس میں آپ کے بیان کے دوران برابر رقت طاری رہی۔

جواب: ‘ماشاءاللہ یہ اچھی حالت ہے۔ فکر آخرت مبارک ہو۔’

 

مکمل اور اصلی تسلی

سوال: معمولات برابر جاری ہیں، لیکن تسلی نہیں ہوتی۔ ہر وقت خیال رھتا ہے کہ نہ معلوم کیا کیا کوتاہی ہو رہی ہے۔

جواب: مکمل تسلی تو دین کے معاملہ میں ہونی بھی نہ چاھیے۔ ہر دم جس کو اپنی عاقبت کی فکر ہو اسکی اصل تسلی تو اس وقت ہوگی جب پتہ چل جائیگا کہ اللہ تعالی نے مغفرت و رحمت کا معاملہ فرما کر بخش دیا۔ لیکن اپنی سی کوشش اصلاح کی کرتے رھنا چاھیۓ۔ بہتر ہے کہ امام غزالی رح کی تبلیغ الدین پڑھکر اپنے حالات کا اس کی روشنی میں جائزہ لیں۔ کوئی بات پوچھنے کی ہو تو پوچھ لیں۔ نیز ‘اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم’ کی روشنی میں اتباع سنت کا اھتمام کریں۔

 

ماضی کی تلافی

سوال: عمر کے 63 سال پورے ہوگۓ۔ ساری عمر کوتاہی اور غفلت میں گذرگئی۔

جواب: حب ماضی کا خیال آیا کرے فورا” استغفار کا اھتمام فرمالیا کریں۔ انشاءاللہ کوتاہی اور غفلت کی تلافی ہو جائیگی۔

 

اصل چیز کوشش ہے

سوال: معلوم نہیں کون کون سے حقوق العباد اور حقوق اللہ اب بھی پورے نہیں ہورہے۔

جواب: کوشش جاری اے کہ نہیں؟ اگر کوشش ہے اور قدم آگے بڑھ رہا ہے تو اس پر شکر ادا کریں، اور جو کوتاہی ہے اسکا تدارک عمل یا استغفار سے کریں۔ بس یہی کرتے رھنا ہے۔

 

 

اصلاح کی فکر

سوال: معلوم نہیں اللہ تعالی ایسے ناکارہ بندے کے ساتھ کیا معاملہ کریں گے؟

جواب: اللہ تعالی کی رحمت سے امید رکھتے ہوۓ اصلاح کی فکرجاری رہے تو ان کی طرف سے کرم ہو جاتا ہے۔

 

مناسبت استفادے کیلیۓ ضروری ہے

بیعت کی درخواست قبول کر تے ہوۓ تحریر فرمایا، ‘احطر نے ابتک دو وجہ سے بیعت کی ضرورت نہ سمجھی تھی۔ اولا” اپنی نااہلی کی وجہ سے، ثانیا” دوسرے ایسے حضرات کا پتہ بتا دیا تھا جن سے بیعت ہو کر احقر کو ذیادہ نفع کی امید تھی۔ لیکن اس طویل مدت میں ان کی طرف آپ کا رجوع نہ کرنے سے معلوم ہوا کہ وہاں مناسبت نہیں، جو استفادے کیلیۓ ضروری ہے۔ لہذا جب آپ احقر کی نااہلی کے باوجود احقر سے یہ خدمت لینا چاھتے ہیں تو بسم اللہ! فون پر وقت طے کر کے تشریف لے آئیں۔ اور آنے سے پہلے “تسہیل قصد السبیل” کا مطالعہ فرما لیں۔

تا دم آخر دمے فارغ مباش

سوال: اکثر خیال آتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معمولات پورے نہ ہو پائیں۔ پھر اللہ سے دعا کرتا ہفں کہ جیسے اب تک مدد کی ہے ویسے ہی مدد کرتے رھیۓ۔

جواب: الحمدللہ، یہی ادھیڑ بن زندگی بھر جاری رکھنی ہے۔

شکر کا طریقہ

سوال: اپنی زندگی پر نظر کرتا ہوں تو روئیں روئیں سے اللہ تعالی کا شکر کرتا ہوں۔

جواب: رات کو سونے سے پہلے ایک ایک نعمت کا تصور کر کےزبان سے جتنا ہوسکے شکر ادا کیا کریں۔

اصلی اطمینان

سوال: نہ تو اعمال کسی قابل پاتا ہوں اور نہ کوئی ایسی بات جس سے اطمینان ہو کہ وہاں بھی معاملہ یہی رہے گا۔

جواب: اطمینان اپنے کسی عمل سے نہیں، ان کی رحمت پر نگاہ کرنے سے کہ جب یہاں نوازا ہے تو انشاءاللہ وہاں بھی محروم نہ فرمائینگے۔

معمولات پر استقامت اور طریقہ اپنے رزائل معلوم کرنے کا

جواب: معمولات پر استقامت مبارک ہو۔ اللہ تعالی مزید ترقیات ظاہرہ و باطنہ سے سرفراز فرمائیں۔ آمین۔ اپنا جائزہ ‘بصائر حکیم الامت رح’ کی روشنی میں لیتے رہیں۔ جہاں اپنے عمل میں کسی رزیلے کا شبہ ہو لکھ کر اس کے بارے میں دریافت کرلیں۔

رمضان کے معمولات

سوال:رمضان المبارک کے لئے دعا اور نصیحت کی درخواست ہے۔

جواب: رمضان شریف میں کثرت تلاوت، کثرت ذکر، نگاہوں کی حفاظت اور کثرت دعا کا اھتمام کیں۔ احقر کو بھی یاد رکصنے کی درخواست ہے۔

کم مائیگی کا احساس

سوال: اپنی عبادت کی کم مائیگی کا احساس اور ادراک ہے، نظر صرف اور صرف ان کے کرم پر ہے۔

جواب: اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے۔ اس نعمت پر خوب شکر ادا کریں۔ اللہ تعالی اس کے انوار و برکات سے مالامال فرمائیں۔ آمین۔

مواعظ اشرفیہ کے مطالعہ کی ترغیب

سوال: پچھلے دنوں آپ نے دریافت فرمایا تھا کہ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے چالیس مواعظ پڑھ لیۓ ہیں؟ چونکہ گن کر نہیں پڑھے تھے اس لیۓ اندازا” تعداد بتادی تھی۔

جواب: مواعظ کم از کم چالیس جلد از جلد مکمل کرلیں۔

 

رضا بالقضاء کی حقیقت

سوال: بیماری کے دوران اطمینان قلب رہا اور ذکر کی کثرت رہی۔ بیماری کی وجہ سے کسی قسم کی وحشت یا عقلی اندیشہ نہ ہونے پایا۔ پورا یقین اور اطمینان رہا کہ انشاءاللہ، اللہ تعالی جو کچھ میرے لیۓ کریں میرے حق میں بہتر ہےگا۔

جواب: الحمدللہ، یہی رضا بالقضاء ہے، اور بڑے اجر کا موجب، انشاءاللہ۔

عمل کی حقیقت

سوال: آخرت کا دھیان رھتا ہے اور سمجھتا ہوں کہ کہ اپنا کوئی عمل اس قابل نہ ہوا کہ  وہاں پیش ہو سکے۔ کیا حسر ہوگا؟

جواب: عمل اپنی ذات میں کچھ نہیں۔ مگر ان کی سنت یہ ہے کہ بندے کے ٹوٹے پھوٹے عمل پر بھی کرم فرما تے بیں۔

 

اجازت بیعت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محترمی جناب شوکت کمال صاحب زید مجدکم

اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ بندے کے دل میں قوت کے ساتھ یہ داعیہ پیدا ہوا کہ آپ کو بیعت و تلقین کی اجازت دوں، چنانچہ دعا اور استخارہ کے بعد اللہ تعالی کے نام اور اس کے بھروسے پر آپ کو سلسلئہ اشرفیہ میں بیعت و تلقین کی اجازت دیتا ہوں۔ اگر کوئی طالب صادق اصلاحی تعلق کیلیۓ رجوع کرے تو انکار نہ کریں، اور مناسب وقت پر بیعت بھی کر سکتے ہیں۔ یہ خدمت اپنی سعادت سمجھ کر انجام دیں، اس سے متعلم کے ساتھ معلم کو بھی نفع ہوتا ہے، اپنے خاص اہل تعلق کو اس کی اطلاع بھی کر دیں، والسلام۔

اس سلسلے میں مزید ہدایات انشاءاللہ عنقریب ارسال کروں گا۔

 

ذمہ داری منجانب اللہ پر امداد الہی

اجازت بیعت کی اطلاع پر حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر رقت طاری ہوگئی اور تواضع و شکستگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔

سوال: حضرت میں صدق دل سے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ہرگز دور دور تک اس اجازت کا نہ تو اہل ہوں اور نہ اس لائق ہوں کہ اتنی بڑی ذمہ داری نباہ سکوں۔

جواب: اسی کی توقع بھی، اور ایسا ہی ہونا چاھیۓ۔ البتہ جب کوئی ذمہ داری بغیر طلب کے منجانب اللہ آجاۓ تو اللہ تعالی کی طرف سے مدد بھی ہوتی ہے، انشاءاللہ ہوگی۔ ایک ہدایت نامہ منسلک ہے،اسپر عمل کرتے رہیں۔

 

ہدایات براۓ مجازین

1۔ اپنی اصلاح کی فکر سے کبھی غافل نہ ہوں

2۔ معمولات پہلے سے زیادہ پابندی کے ساتھ انجام دیں

3۔ اپنے آپ کو خادم سمجھیں، اور اصلاحی تعلق قائم کرنے والوں کا کام خدمت سمجھ کر انجام دیں

4۔ کبھی مخدومیت، یا مروجہ پیری مریدی کی شان بنانے کی کوشش نہ کریں، بلکہ اس کو اپنے لیۓ زھر قاتل سمجھیں

5۔تعلق رکھنے والوں کے تعریفی کلمات سے عجب کے دھوکے میں مبتلا نہ ہوں، بلکہ یہ تصور کریں کہ یہ اللہ تعالی کی ستاری ہے کہ اس نے ان کی آنکھوں سے میرے عیوب چھپا دیۓ۔

6۔ عبارت کے اھتمام کے ساتھ اخلاق، معاملات اور معاشرت کو درست رکھنے کا خود بھی اھتمام کریں اور متعلقین کو بھی اہمیت کے ساتھ تلقین کریں

7۔ حکیم الامت قدس سرہ کے مواعظ و ملفوظات اور تربیت السالک کا مطالعہ اھتمام کے ساتھ بطور معمول کرتے رہیں

8۔ کسی سائل کے سوال کا جواب معلوم نہ تو کسی بڑے سے پوچھ کر جواب دیں۔

اللہ تعالی اس خدمت کو بطریق احسن انجام دینے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔

وعظ و نصیحت میں نیت

سوال: ہر جمعہ اپنے متعلقین چھوٹے بڑے سب کو لیکر عصر کے بعد بیٹھتا ہوں اور دین کی بات کرتا ہوں۔ آپ کی کتابوں اور بہشتی زیور سے مدد لے رہا ہوں۔ محسوس کرتا ہوں کہ اس سے مجھے خود بہت نفع ہورہا ہے۔

جواب: اپنے نفع کی ہی نیت اصل ہونی چاھیۓ۔

مجازین کو تنبیہ

کسی غیر مناسب عمل پر سیدی و سندی مدظلہ نے تحریر فرمایا، ‘ اب آپ کو ان نسبتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جو بفضلہ تعالی آپ کو حاصل ہوگئ ہیں۔”

غلطی کا احساس قابل شکر ہے

سوال: اپنی غلطی کے ادراک سے سخت ندامت اور افسوس ہوا۔ رات بھر بیچنی رہی اور نیند نہیں آئی۔ صلوۃ توبہ پڑھ کر استغفار کرتا رہا۔

جواب: الحمدللہ، غلطی کا احساس اور اس پر ندامت و توبہ قابل شکر ہے۔

قابل اصلاح امور میں اوروں کو تنبیہ کے سلسلہ میں ہدایت

جواب: تنبیہ میں حتی الامکان نرمی اور پر شفقت فہمائش کے انداز کو مد نظر رکھنا چاھیۓ۔

خانگی امور میں ناچاقیوں کے سلسلہ میں ہدایت

جواب: دنیا میں اس قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ان میں جتنا دخل اپنی غلطی کا ہو اس پرتوبہ و استغفار اور جو غیر اختیاری ہو اس پر صبر و رضا بالقضاء ہی مومن کا صحیح شیوہ ہے۔ اس سے پریشانی ناقابل برداشت نہیں ہو پاتی۔ جس کا بھروسہ اللہ تعالی پر ہو اسے ایسی پریشانی کیوں ہو۔

کرنے کے تین کام

سوال: اپنے پاس تو کچھ بھی نہیں۔

جواب: اپنے کیۓ پر استغفار، ان کی توفیق پر شکر اور ان کی رحمت سے امید۔ یہ تین کام جاری رکھیں۔

ملک کے حالات سے متاثر ہونا

سوال: ملک اور گردوپیش کے حالات کا دل پر اثر رہتا ہے قبض کی صورت ہوتی ہے۔

جواب: یہ جذبہ ایمانی کی علامت ہے۔

 

اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مکمل مغفرت فرمائیں اور درجات بلند کر یں۔ آمین۔ 

آخر میں احقر دو ملوظات ایصال ثواب کے بارے میں نقل کرتا ہے۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے نرمایا،

‘مستحب طریقہ سے ایصال ثواب تو بعد کی چیز ہے۔

 سب سے پہلے دیکھنے کی اور ضروری چیزیں یہ ہیں کہ مرحوم کے ذمہ قرض تو نہ تھا، اگر قرض ہے تو یہ فرض ہے کہ پہلے اس کو ادا کیا جاوے۔

اگر قرض نہیں یا ادا ہو کر کچھ ترکہ بچ گیا تو یہ دیکھو کہ مرحوم کی کچھ وصیت تو نہیں، جب اس سے بھی یکسوئی ہے جاوے اور ترکہ خالص وارثوں کا قرار پا جاوے تو پھر دوسرے خیر خیریت خصوص متعارف رسمیات سے مقدم یہ دکھنا ہے کہ میت کے ذمہ کچھ نماز اور روزہ تو قضاء نہیں۔

اگر ہے تو اس کا فدیہ دیں، اگر اس کے ذمہ زکوۃ ہف اس کو ادا کریں۔ محلہ میں جو غرباء، یتیم، بیوہ، محتاج ہوں انکو تقسیم کردیا جاۓ۔ یہ دوسرا تطوع ایصال ثواب سے بڑھ کر ہے۔؛ (الافاضات الیومیہ جلد 7، ص 40)

عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا،

‘ہم پر اللہ تعالی نے اپنے حقرق کے بعد والدین کے حقوق واجب فرماۓ ہیں۔ انہوں نے پالا پرورش کی، دعائیں کیں، راحت پہنچائی اور جب تک تم بالغ نہیں ہۓ تمہارے کفیل رہے اور جب تم بالغ ہوۓ تو تم نے ان کی کیا خدمت کی ہوگی۔ دیکھو جتنا سرمایا ہے اپنے زندگی بھر کے اعمال حسنہ کا اور طاعات نانلہ کا سب نذر کر دو اپنے والدین کو، ان کو بہت بڑا حق ہے، کیونکہ والدین کو اللہ تعالی نے مظہر ربوبیت بنایا ہے۔ اس عمل خیر کا ثواب تمہیں بھی اتنا ملے گا جتنا دے رہے ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ یہ تمہارا ایثار ہے اور اس کا بہت بڑا ثواب ہے۔

میں تو اپنی ساری عمر کی تمام عبادات و طاعات نافلہ اور اعمال خیر اپنے والدین کی روح پر بخش دیتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اب بھی حق ادا نہیں ہوا۔ اللہ تعالی اپنی رحمت واسعہ سے قبول فرمالیں۔  (رمضان المبارک کے انوار و برکات، ص 14)

حضرت والد رحمۃ اللہ علیہ  کی وفات پر

سیدی و سندی حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی نظم سے انتخاب

 

کیوں تیرہ و تاریک ہے نظروں میں جہاں آج

کیوں چھاۓ ہیں ہر سمت یہ ظلمت کے نشاں آج

کیا نخل تمنا کو میرے آگ لگی ہے؟

رہ رہ کے یہ سینےسے جو اٹھتا ہے دھواں آج

رفتار تنفس ہے کہ چلتے ہوۓ آرے

کیوں جرعئہ زہر اب ہے یہ شربت جاں آج

کیا حضرت والد کو قضا لے کے چلی ہے؟

اک قافلہ نور ہے گروں پہ رواں آج

ابا میرے جنت کے بسانے کو چلے ہیں

اے موت! ترا مرتبہ پہنچا ہے کہاں آج

دل میں وہ تلاطم ہے کہ ہلچل سی مچی ہے

اور آنکھ ہے ظالم! کہ بس خشک کنواں آج

وہ والد مشفق، وہ مرے شیخ و مربی

کس دیس کی بستی میں ہیں آرام کناں آج

کیا سچ ہے کہ اب ان کو نہ میں دیکھ سکوں گا

یا دیکھ رہا ہوں کوئی خواب گراں آج

اب کون ہے دنیا میں جو پوچھے گا تقی کو

کس فکر میں ہے؟ کیوں نہیں آیا؟ ہے کہاں آج